Skip to main content

Question Answer Session With Mufti Nazir Ahmed Qasmi Sahab

 








سوال:1

میرے بہنوئی سرکاری ملازمت کی وجہ سے اپنی بیوی بچے کے ساتھ شہر میں رہتے ہیں ۔ اب وہ جب ہر ہفتے میں دو دن رات کے لئے بیوی بچے کو ساتھ لے کر ماں باپ کے گھر چلے جاتے ہیں ، وہاں اس کی ماں بیٹے کی موجودگی میں مختلف بہانوں سے بہو سے لڑتی جھگڑتی ہے ، اسے اور اس کے مائکے کوستی ہے ۔ آس پڑوس کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور ہر کسی کے سامنے بہو کو بدنام کرتی پھرتی ہے ۔ اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ ہم نے تمہاری شادی اپنے آرام کے لئے کی ہے ۔ تم بیوی کو ہماری خدمت کے لئے ہمارے پاس ہی چھوڑ کر جایا کرو اور جب میرا بہنوئی اپنے والدین کو خوش کرنے کے لئے بیوی کو وہاں رکھتا بھی ہے تو ساس کا روّیہ پھر بھی ویسا ہی ہوتا ہے ۔ میری بہن کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ ان حالات میں وہ کیا کرے اور شوہر سے کیا توقع رکھے جب کہ میرے بہنوئی کے والد ابھی خود کماتے بھی ہیں اور ان کی والدہ کی ابھی عمر اورصحت ایسی ہے کہ وہ گھر کا سارا کام کرسکتی ہے اور پھر ان کے گھر میں ان کی ایک جوان بہن اور بھائی بھی ہے ۔


آیت الٰہی …اسلام آباد 


جواب:1

شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماں باپ کی خدمت بھی کرے اور بیوی بچوں کے حقوق بھی پورا کرے ۔ زوجہ کو زبردستی ماں باپ کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا یقیناً بیوی پر ظلم ہے ۔ شریعت واخلاق کی رو سے یہ ہرگز درست نہیں ہے ۔ 


ساس کا گالی گلوچ کرنا اگر ردعمل ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ساس بھی اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور بہو بھی اپنا طرزِ عمل درست کرے ۔


شوہر کا شہر میں یا گاؤں میں بسنا اور بسانا یہ زوجہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ خود کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والدین ، اپنے بیوی بچوں کا مستقبل ملحوظ رکھ کر دُور اندیشی سے اپنے مالی وسائل کے مطابق آگے بڑھے ۔ زوجہ کو طعنہ دینا اور ساس کا اُس میں دخل دینا ہرگز دُرست  نہیں ۔ گالی دینا ، بدنام کرنا ، طعنہ دینا ، مار پیٹ کرنا ، زبردستی خدمت لینا یہ سب شرعاً بھی درست نہیں ، اور اخلاق کی رو سے بھی سخت غلط ہے ۔ 


دراصل ساس اور بہو جب ماں بیٹی کی طرح رہنے لگیں گی تو ساری شکایتیں ازخود ختم ہوں گی اور بہت سارے جھگڑے اور نزاعات سرے سے پیدا ہی نہ ہوںگے ۔ ساس اپنی بہو کے ساتھ ماں جیسا برتائو کرے جیسے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کرتی ہے اور بہو اپنی ساس کے ساتھ بیٹی جیسا برتاؤ کرے جیسے وہ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ کرتی ہے تو سارے فتنے اور اختلافات شکایات اور دوریاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:٦-

کیا بیوی شوہر سے یہ تقاضا کرسکتی ہے کہ میں سسرال والوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہوں ، میرا اُن سے الگ رہنے کا انتظام کر دیجئے ۔ ان حالات میں شوہر کن کے ساتھ رہے ۔ خصوصاً رات کے اوقات میں ۔ اس کا کھانا پینا والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہو کہ بیوی بچوں کے ساتھ ؟


آیت الٰہی …اسلام آباد 


جواب:٦-

زوجہ اگر سسرال والوں سے الگ رہنے کا مطالبہ کرے اور شوہر کے لئے اس مطالبہ کے پورا کرنے میں کوئی واقعی مشکل نہ ہو تو پھر یہ مطالبہ دُرست ہے ۔ اس صورت میں شوہر کو رات اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی گزارنا لازم ہے اگر شوہر کے الگ رہنے میں واقعتاً مشکلات ہوں تو زوجہ کا علیحدگی کا مطالبہ کرنا ہی غلط ہے ۔ دراصل یہ حکم حالات کے مطابق ہوتا ہے

Comments

Popular posts from this blog

QUESTION ANSWER SESSION BY SHAYKHUL HADEES MUFTI NAZIR SB

 QUESTION : : IS DRESS PRESCRIBED IN ISLAM?? KYA ISLAM MAI LIBAAS MUTAYIN HAIN? ا سلام میں لباس ضرور متعین ہے ۔ مگر اس متعین ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی لباس مخصوص کرکے دیگر لباسوں کو حرام کر دیا گیا ہو بلکہ متعین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ چند چیزوں سے بچنے کا حکم دے کر بقیہ ہر لباس کو جائز قرار دیا گیا ۔ چنانچہ وہ یہ ہیں :(۱)- ہر وہ لباس ممنوع ہے جس سے پردہ کی ضرورت پوری نہ ہو ۔ چنانچہ آج کے عہد میں تنگ و چست لباس جس میں بدن کے چھپائے جانے والے اعضاء کا حجم نمایاں طورپر دوسروں کو محسوس ہو سراسر غیر اسلامی لباس ہے ۔ چاہے مرد ایسا لباس استعمال کریں یا عورتیں ……گویا اسلام ڈھیلا اور اعضاء کے نشیب و فراز اور حجم کو ظاہر نہ کرنے والے لباس کو پہننے کا حکم دیتا ہے ۔ لباس کے لئے یہ شرط قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (اعراف)۔ لہٰذا تنگ و چشت پتلون جسےSKIN TIGHT کہتے ہیں یا بدن سے چپکا ہوا پاجامہ ، دونوں غیر شرعی زمرے میں آئیں گے ۔ اسی طرح عورتوں کے لئے تنگ و چست فراک اور مردوں کے لئے ایسی قمیص یا شرٹ ممنوع ہوگی جو بہت تنگ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ہر ایسا لباس جو دوسری اقوام کی مذہبی یا تمدنی ...

غیر مقلدین کے پیچھے نمام پڑھنے جا حکم..

 غیر مقلدین كے پیچھے نماز پڑھنا سوال:کیا غیر مقلدین کی پیچھے نماز ہوتی ہے؟ اور اس کی مسجد میں جانا ٹھیک ہے کہ نہیں؟اور ھمارے دیوبندی اور غیر مقلدین کے درمیان جو نماز میں اختلاف ہے اس پہ نظر ثانی کرے ..... جواب نمبر: 39055 بسم الله الرحمن الرحيم فتوی: 787-798/N=10/1433 (۱) جو غیرمقلد تقلید کو شرک، خلفائے راشدین کی جاری کردہ سنن کو بدعات اور ائمہ مجتہدین وغیرہم کے متعلق زبان درازیاں کرتا ہو وہ فاسق ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے، اور آج کل کے اکثر غیرمقلدین ایسے ہی ہوتے ہیں اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ (۲) جس مسجد کا امام متعصب غیرمقلد ہو اس میں نماز کے لیے جانے سے احتراز چاہیے اور اگر کبھی کسی غیرمقلد کے پیچھے نماز پڑھنے کا اتفاق ہوجائے تو اس شرط کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہوگا کہ وہ کوئی ایسا عمل نہ کرتا ہو جس سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق نماز صحیح نہیں ہوتی۔ اگر اس نے ایسا کوئی عمل کیا جس سے امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب میں نماز درست نہیں ہوتی تو معلوم ہوجانے کے بعد نماز کا اعادہ واجب ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند