سوال:1
میرے بہنوئی سرکاری ملازمت کی وجہ سے اپنی بیوی بچے کے ساتھ شہر میں رہتے ہیں ۔ اب وہ جب ہر ہفتے میں دو دن رات کے لئے بیوی بچے کو ساتھ لے کر ماں باپ کے گھر چلے جاتے ہیں ، وہاں اس کی ماں بیٹے کی موجودگی میں مختلف بہانوں سے بہو سے لڑتی جھگڑتی ہے ، اسے اور اس کے مائکے کوستی ہے ۔ آس پڑوس کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور ہر کسی کے سامنے بہو کو بدنام کرتی پھرتی ہے ۔ اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ ہم نے تمہاری شادی اپنے آرام کے لئے کی ہے ۔ تم بیوی کو ہماری خدمت کے لئے ہمارے پاس ہی چھوڑ کر جایا کرو اور جب میرا بہنوئی اپنے والدین کو خوش کرنے کے لئے بیوی کو وہاں رکھتا بھی ہے تو ساس کا روّیہ پھر بھی ویسا ہی ہوتا ہے ۔ میری بہن کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ ان حالات میں وہ کیا کرے اور شوہر سے کیا توقع رکھے جب کہ میرے بہنوئی کے والد ابھی خود کماتے بھی ہیں اور ان کی والدہ کی ابھی عمر اورصحت ایسی ہے کہ وہ گھر کا سارا کام کرسکتی ہے اور پھر ان کے گھر میں ان کی ایک جوان بہن اور بھائی بھی ہے ۔
آیت الٰہی …اسلام آباد
جواب:1
شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماں باپ کی خدمت بھی کرے اور بیوی بچوں کے حقوق بھی پورا کرے ۔ زوجہ کو زبردستی ماں باپ کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا یقیناً بیوی پر ظلم ہے ۔ شریعت واخلاق کی رو سے یہ ہرگز درست نہیں ہے ۔
ساس کا گالی گلوچ کرنا اگر ردعمل ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ساس بھی اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور بہو بھی اپنا طرزِ عمل درست کرے ۔
شوہر کا شہر میں یا گاؤں میں بسنا اور بسانا یہ زوجہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ خود کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والدین ، اپنے بیوی بچوں کا مستقبل ملحوظ رکھ کر دُور اندیشی سے اپنے مالی وسائل کے مطابق آگے بڑھے ۔ زوجہ کو طعنہ دینا اور ساس کا اُس میں دخل دینا ہرگز دُرست نہیں ۔ گالی دینا ، بدنام کرنا ، طعنہ دینا ، مار پیٹ کرنا ، زبردستی خدمت لینا یہ سب شرعاً بھی درست نہیں ، اور اخلاق کی رو سے بھی سخت غلط ہے ۔
دراصل ساس اور بہو جب ماں بیٹی کی طرح رہنے لگیں گی تو ساری شکایتیں ازخود ختم ہوں گی اور بہت سارے جھگڑے اور نزاعات سرے سے پیدا ہی نہ ہوںگے ۔ ساس اپنی بہو کے ساتھ ماں جیسا برتائو کرے جیسے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کرتی ہے اور بہو اپنی ساس کے ساتھ بیٹی جیسا برتاؤ کرے جیسے وہ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ کرتی ہے تو سارے فتنے اور اختلافات شکایات اور دوریاں ختم ہوجاتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:٦-
کیا بیوی شوہر سے یہ تقاضا کرسکتی ہے کہ میں سسرال والوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہوں ، میرا اُن سے الگ رہنے کا انتظام کر دیجئے ۔ ان حالات میں شوہر کن کے ساتھ رہے ۔ خصوصاً رات کے اوقات میں ۔ اس کا کھانا پینا والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہو کہ بیوی بچوں کے ساتھ ؟
آیت الٰہی …اسلام آباد
جواب:٦-
زوجہ اگر سسرال والوں سے الگ رہنے کا مطالبہ کرے اور شوہر کے لئے اس مطالبہ کے پورا کرنے میں کوئی واقعی مشکل نہ ہو تو پھر یہ مطالبہ دُرست ہے ۔ اس صورت میں شوہر کو رات اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی گزارنا لازم ہے اگر شوہر کے الگ رہنے میں واقعتاً مشکلات ہوں تو زوجہ کا علیحدگی کا مطالبہ کرنا ہی غلط ہے ۔ دراصل یہ حکم حالات کے مطابق ہوتا ہے
Comments
Post a Comment