Skip to main content

QUESTION ANSWER SESSION BY SHAYKHUL HADEES MUFTI NAZIR SB

 QUESTION::IS DRESS PRESCRIBED IN ISLAM??

KYA ISLAM MAI LIBAAS MUTAYIN HAIN?

اسلام میں لباس ضرور متعین ہے ۔ مگر اس متعین ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی لباس مخصوص کرکے دیگر لباسوں کو حرام کر دیا گیا ہو بلکہ متعین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ چند چیزوں سے بچنے کا حکم دے کر بقیہ ہر لباس کو جائز قرار دیا گیا ۔ چنانچہ وہ یہ ہیں :(۱)- ہر وہ لباس ممنوع ہے جس سے پردہ کی ضرورت پوری نہ ہو ۔ چنانچہ آج کے عہد میں تنگ و چست لباس جس میں بدن کے چھپائے جانے والے اعضاء کا حجم نمایاں طورپر دوسروں کو محسوس ہو سراسر غیر اسلامی لباس ہے ۔ چاہے مرد ایسا لباس استعمال کریں یا عورتیں ……گویا اسلام ڈھیلا اور اعضاء کے نشیب و فراز اور حجم کو ظاہر نہ کرنے والے لباس کو پہننے کا حکم دیتا ہے ۔

لباس کے لئے یہ شرط قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (اعراف)۔ لہٰذا تنگ و چشت پتلون جسےSKIN TIGHT کہتے ہیں یا بدن سے چپکا ہوا پاجامہ ، دونوں غیر شرعی زمرے میں آئیں گے ۔ اسی طرح عورتوں کے لئے تنگ و چست فراک اور مردوں کے لئے ایسی قمیص یا شرٹ ممنوع ہوگی جو بہت تنگ ہو۔

دوسری شرط یہ ہے کہ ہر ایسا لباس جو دوسری اقوام کی مذہبی یا تمدنی علامت ہو وہ بھی ممنوع ہوگا۔ چنانچہ دھوتی ، غیر مسلم اقوام جیسی پگڑی اور مغربی اقوام کے تمام وہ لباس جو فیشن اور فحش مزاج کی ترویج کے لئے رائج کئے جارہے ہیں وہ سب غیر اسلامی ہوں گے۔ یہ حدیث سے ثابت ہے ۔ چنانچہ ابوداؤد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے

تیسری شرط یہ ہے کہ مرد عورتوں جیسا لباس نہ پہنیں اور عورتیں مردوں جیسا لباس نہ پہنیں ۔ اس پر حدیث میں لعنت کی گئی ۔ یہ حدیث بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ اُن مردوں پر لعنت جو عورتوں جیسا لباس پہنیں اور اس عورتوں پر لعنت جو مردوں جیسا لباس پہنیں ۔

دراصل اسلام دونوں صنفوں کے طبعی فرق اور فطری انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے دونوں کے لباس میں بھی فرق قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ دونوں کا امتیاز برقرار رہے ۔ جبکہ آج کا فیشن زدہ تمدن دونوں کو مخلوط کرکے معاشرہ کو اباحیت پسند آوارگی کا شکار بنانے اور جنسی بے راہ روی کے دلدل میں ڈبونے کا علمبردار ہے اور اس کو حسین عنوان کے ساتھ ترویج دینے پر گامزن ہے جبکہ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ فاسقوں ، فاجروں جیسا لباس استعمال نہ کیا جائے ۔ چنانچہ جو طبقے جنسی کشش پیدا کرنے والے لباس استعمال کرتے ہیں اور زناکاری یا فحش کاری ، جن کے یہاں کوئی جرم نہیں، اُن کے مخصوص لباس کو اسلام ہرگز قبول نہیں کرتا ۔ چنانچہ حدیث میں ہے سادگی ایمان کا مقتضیٰ ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں اسلام نفاست کا قائل نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے صفائی ستھرائی اور سلیقہ و تہذیب کا جس طرح اسلام علمبردار ہے اُس طرح کوئی مہذب اور دوسرا کوئی ازم نہیں۔ طہارت ، نظامت اور نفاست تو اسلام کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔پانچویں شرط یہ ہے کہ مرد نہ ریشم کا لباس پہنیں ، نہ تیز سرخ لباس پہنیں اور نہ ٹخنوں کے نیچے کپڑا لٹکائیں۔ اس کی مزید تفصیل درس ترمذی نیز تکملہ فتح الملہم شرح مسلم کے کتاب اللباس میں ملاحظہ کریں ۔

Comments

  1. The third condition is that men should not dress like women and women should not dress like men. He was cursed in the hadith. This hadith is in Bukhari Muslim etc. that the curse is on the men who dress like women and the curse is on the women who dress like men.


    ReplyDelete
  2. Thank you publishing these fatwas

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

غیر مقلدین کے پیچھے نمام پڑھنے جا حکم..

 غیر مقلدین كے پیچھے نماز پڑھنا سوال:کیا غیر مقلدین کی پیچھے نماز ہوتی ہے؟ اور اس کی مسجد میں جانا ٹھیک ہے کہ نہیں؟اور ھمارے دیوبندی اور غیر مقلدین کے درمیان جو نماز میں اختلاف ہے اس پہ نظر ثانی کرے ..... جواب نمبر: 39055 بسم الله الرحمن الرحيم فتوی: 787-798/N=10/1433 (۱) جو غیرمقلد تقلید کو شرک، خلفائے راشدین کی جاری کردہ سنن کو بدعات اور ائمہ مجتہدین وغیرہم کے متعلق زبان درازیاں کرتا ہو وہ فاسق ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے، اور آج کل کے اکثر غیرمقلدین ایسے ہی ہوتے ہیں اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ (۲) جس مسجد کا امام متعصب غیرمقلد ہو اس میں نماز کے لیے جانے سے احتراز چاہیے اور اگر کبھی کسی غیرمقلد کے پیچھے نماز پڑھنے کا اتفاق ہوجائے تو اس شرط کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہوگا کہ وہ کوئی ایسا عمل نہ کرتا ہو جس سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق نماز صحیح نہیں ہوتی۔ اگر اس نے ایسا کوئی عمل کیا جس سے امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب میں نماز درست نہیں ہوتی تو معلوم ہوجانے کے بعد نماز کا اعادہ واجب ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

Question Answer Session With Mufti Nazir Ahmed Qasmi Sahab

  سوال:1 میرے بہنوئی سرکاری ملازمت کی وجہ سے اپنی بیوی بچے کے ساتھ شہر میں رہتے ہیں ۔ اب وہ جب ہر ہفتے میں دو دن رات کے لئے بیوی بچے کو ساتھ لے کر ماں باپ کے گھر چلے جاتے ہیں ، وہاں اس کی ماں بیٹے کی موجودگی میں مختلف بہانوں سے بہو سے لڑتی جھگڑتی ہے ، اسے اور اس کے مائکے کوستی ہے ۔ آس پڑوس کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور ہر کسی کے سامنے بہو کو بدنام کرتی پھرتی ہے ۔ اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ ہم نے تمہاری شادی اپنے آرام کے لئے کی ہے ۔ تم بیوی کو ہماری خدمت کے لئے ہمارے پاس ہی چھوڑ کر جایا کرو اور جب میرا بہنوئی اپنے والدین کو خوش کرنے کے لئے بیوی کو وہاں رکھتا بھی ہے تو ساس کا روّیہ پھر بھی ویسا ہی ہوتا ہے ۔ میری بہن کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ ان حالات میں وہ کیا کرے اور شوہر سے کیا توقع رکھے جب کہ میرے بہنوئی کے والد ابھی خود کماتے بھی ہیں اور ان کی والدہ کی ابھی عمر اورصحت ایسی ہے کہ وہ گھر کا سارا کام کرسکتی ہے اور پھر ان کے گھر میں ان کی ایک جوان بہن اور بھائی بھی ہے ۔ آیت الٰہی …اسلام آباد  جواب:1 شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماں باپ کی خدمت بھی کرے اور بیوی بچوں کے ...